نتیجہ: شیعوں پر متعہ کے مسئلہ پر تعن و طنز کرنے والے صحیح بخاری کی اس روایت پر غور کرین کہ کتنی وضاحت کے ساتھ پیغمبر ص نے متعہ کی اجازت دی ہے لیکن روایت کے آخر میں امام بخاری نے مولا علی ع کے حوالے سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ متعہ کی اجازت دی مگر پھر اس کو منسوخ کردیا۔ سوال یہ ہے اگر نبی ص نے حکم متعہ کو منسوخ کردیا تھا تو امام بخاری کو چائیے تھا کہ انہی راویوں کے حوالے سے متعہ کا منسوخ ہونا ثابت کرتے جنکے حوالے سے اجازت متعہ کی روایت درج کی ہے۔ یہ صرف شیعون کی عداوت ہے جو انہوں نے مولا علی ع کا سہارا لیا، کاش مولا علی ع کا سہارا اہل بیت ع کی محبت میں اختیار کرتے تو صحیح بخاری حقیقت میں صحیح بخاری ہوتی۔
اب ہم صحیح بخاری کی بعد مسلمانوں کی سب سے معتبر کتاب صحیح مسلم میں دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی نبی پاک ص نے نکاح متعہ سے منع فرمادیا۔؟
اس کا جواب ہے نہیں۔ صحیح مسلم جلد ۷ کتاب النکاح میں سلمہ بن اکوع اور حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ص ہمارے پاس تشریف لائے اور ہمیں متعہ کے بارہ میں اجازت دی۔
اب اگر رسول اللہ ص اس حکم سے اپنے ہی زمانہ میں منع فرماتے تو آگے کی روایت آپ کو پڑھنے کو کبھی نہ ملتی۔
عطا کہتے ہیں کہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ(اسی روایت کے راوی جس میں متعہ کی اجازت دی گئی ہے)
عمرہ کےلئے آئے۔ ہم ان کے پاس ان کی قیام گاہ پر حاضر ہوئے۔ لوگوں نے ان کی کئی چیزوں کی بابت پوچھا۔ پھر متعہ کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا ہاں۔ ہم نے رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے زمانہ میں متعہ کیا تھا۔
اس کا جواب ہے نہیں۔ صحیح مسلم جلد ۷ کتاب النکاح میں سلمہ بن اکوع اور حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ص ہمارے پاس تشریف لائے اور ہمیں متعہ کے بارہ میں اجازت دی۔
اب اگر رسول اللہ ص اس حکم سے اپنے ہی زمانہ میں منع فرماتے تو آگے کی روایت آپ کو پڑھنے کو کبھی نہ ملتی۔
عطا کہتے ہیں کہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ(اسی روایت کے راوی جس میں متعہ کی اجازت دی گئی ہے)
عمرہ کےلئے آئے۔ ہم ان کے پاس ان کی قیام گاہ پر حاضر ہوئے۔ لوگوں نے ان کی کئی چیزوں کی بابت پوچھا۔ پھر متعہ کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا ہاں۔ ہم نے رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے زمانہ میں متعہ کیا تھا۔
قارئین غور کیا آپ نے کہ یہ روایت کسی عام کتاب میں نہیں بلکہ صحیح بخاری کے بعد معتبر ترین کتاب صحیح مسلم میں درج ہے۔ امام بخاری نے متعہ کی منع کی روایت کو واضح نہیں کیا۔ اور نہ ہی ان راویوں سے اس بابت کوئی ثبوت پیش کیا جن سے متعہ کی اجازت کی روایات لی گئی ہیں۔
اتنا تو ثابت ہوگیا کہ نکاح متعہ سے رسول خدا ص نے ہرگز منع نہیں فرمایا تھا۔ بلکہ تمام صحابہ رسول ص کے زمانہ میں اور ابوبکر کے زمانہ میں اور عمر کی خلافت کے آدھے زمانہ میں بھی نکاح متعہ کرتے آئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس نکاح سے کس نے منع کیا اور حلال خدا کو کس نے حرام کیا؟
اتنا تو ثابت ہوگیا کہ نکاح متعہ سے رسول خدا ص نے ہرگز منع نہیں فرمایا تھا۔ بلکہ تمام صحابہ رسول ص کے زمانہ میں اور ابوبکر کے زمانہ میں اور عمر کی خلافت کے آدھے زمانہ میں بھی نکاح متعہ کرتے آئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس نکاح سے کس نے منع کیا اور حلال خدا کو کس نے حرام کیا؟
اس روایت میں بھی حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا ہے۔ جب پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا ہم نے یہ دونوں متعے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کئے(قارئین غور کیجیے گا کہ یہ نہیں کہا ہے کہ جنگ خیبر تک رسول ﷺ کے ساتھ کرتے آئے بلکہ یہ کہا ہے کہ رسول اللہ ؑﷺ کے ساتھ کرتے آئے یعنی جب منع ہی نہیں کیا گیا تو کرتے آئے) پھر ان دونوں سے ہمیں عمر نے منع کردیا۔ پھر ہم نے ان دونوں کا اعادہ نہیں کیا۔
دوسری روایت: عمرو بن حریث کے واقعہ پر عمر نے نکاح متعہ سے منع کردیا۔
پس ثابت ہوگیا کہ جو ناصبی شیعہ دشمنی میں اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے آرہے ہیں کہ رسول اللہ ص نے اسے جنگ خیبر پر حرام کردیا۔ وہ اپنے اس دعویٰ کو اپنی معتبر ترین کتابوں میں کھوکھلا دیکھ سکتے ہیں۔ اور ان کتابوں کو قرآن کے بعد صحیح کہنے والوں کو یہ روایات پڑھنے کے بعد اب اس بات کو قبول کر لینا چاہئے کہ نکاح متعہ سے منع کرنے والے رسول ﷺ نہیں بلکہ خلیفہ دوم عمر بن خطاب تھے
دوسری روایت: عمرو بن حریث کے واقعہ پر عمر نے نکاح متعہ سے منع کردیا۔
پس ثابت ہوگیا کہ جو ناصبی شیعہ دشمنی میں اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے آرہے ہیں کہ رسول اللہ ص نے اسے جنگ خیبر پر حرام کردیا۔ وہ اپنے اس دعویٰ کو اپنی معتبر ترین کتابوں میں کھوکھلا دیکھ سکتے ہیں۔ اور ان کتابوں کو قرآن کے بعد صحیح کہنے والوں کو یہ روایات پڑھنے کے بعد اب اس بات کو قبول کر لینا چاہئے کہ نکاح متعہ سے منع کرنے والے رسول ﷺ نہیں بلکہ خلیفہ دوم عمر بن خطاب تھے
No comments:
Post a Comment