Wednesday, 27 May 2015

صحیح بخاری: منکرین وسیلہ عمر بن خطاب کو کیا کہیں گے






































نتیجہ: پہلی والی روایت سے حضرت ابو طالب ع کے شعر کی برکت ثابت ہورہی ہے۔ اس کو اللہ کے انتظام کے علاوہ کیا کہا جائے کہ امام بخاری جیسا متعضب محدث اور صحیح بخاری جیسی غلط کتاب اور اس میں جناب ابو طالب علیہ السلام کے اس شعر کا ذکر جس میں آپنے رسول پاک ص کے چہرے کو پانی برسنے کا وسیلہ بتایا ہے اور پھر عبداللہ بن عمر کا اسی شعر کو ذہن میں رکھ کر پیغمبر ص کو دیکھنا یہ ساری باتیں عظمت رسول ص کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی اعلان کررہیں ہیں کہ حضرت ابو طالب ع کس درجہ معرفت رسول ص سے سرشار تھے مگر لعنت ہو ان بد عقلوں پر جو حضرت ابو طالب ع کی کہی ہوئی ان نعتوں کو پڑھنے کے بعد بھی ان کا کافر بھی کہتے ہیں اور نعت رسول ص پرھ کر حضرت ابوطالب ع کی پیروی بھی کرتے ہیں۔


دوسری روایت: انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ جب لوگ قحط کا شکار ہوتے تو عمر بن خطاب ، عباس بن عبدالمطلب ؓ کے توسل (وسیلہ) سے دعا کرتے اور کہتے: اے اللہ ہم تیرے پاس رسول ص کو وسیلہ کے طور پر پیش کرتے تھے تو تو ہمیں سیراب کردیتا تھا اب ہم تیرے رسول ص کے چچا کا وسیلہ لے کر آئیں ہیں ہمیں سیراب فرمادے راوی کا بیان ہے کہ پانی برس پڑتا


نتیجہ: اس روایت کو پڑھنے کے بعد ان لوگوں پر حیرت ہے جو صحیح بخاری کو کلام باری کے بعد سب سے زیادہ معتبر بھی مانتے ہیں اور وسیلہ کو شرک بھی مانتے ہیں۔ اگر وسیلہ بنانا شرک ہے تو اس روایت کی روشنی میں عمر بن خطاب کو مشرک کیوں نہیں کہا جاتا عجیب تماشہ ہے ایک طرف وسیلہ بنانا شرک ہے ،دوسری طرف عمر مشرک ہونے کے بجائے خلیفہ ہیں یہ دوغلی پالیسی کیوں ہے۔؟ تو اس کا صرف ایک ہی سبب ہے کہ جب بھی وسیلہ بنایا گیا تو یا تو رسول ص کو یا کسی رسول ص کے گھر والے کو۔ اس روایت میں رسول ص کے چچا کو وسیلہ بنایا گیا، وسیلہ شاید اس لئے شرک قرار دیا گیا کہ کہیں لوگ وسیلہ کی تلاش میں اہل بیت رسول ص تک نہ پہنچ جائیں۔ کیوں کہ ساری روایتوں میں رسول ص یا ان کے گھر والے تو وسیلہ بنائے گئے ہیں مگر پوری بخاری میں کہیں پر بھی ابوبکر، عمر ، عثمان یا عائشہ ، حفصہ کو کسی نے وسیلہ نہیں بنایا

No comments:

Post a Comment

Share This Knowledge