ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں حفصہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کے گیسووں سے پانی ٹپک رہا تھا، میں عرض گزار ہوا کہ لوگوں نے خلافت کے بارے میں جو کچھ کیا وہ آپ ملاحظہ فرمارہی ہیں، اگر چہ مجھے بذات خود خلافت میں کچھ دلچسپی نہیں ہے ، فرمایا تم لوگوں سے جاکر ملو وہ تمہارا انتظار کررہے ہوں گے اور مجھے ڈر ہے کہ تمہارے نہ جانے کے باعث ان میں نا اتفاقی نہ ہوجائے ، پس ان کے حکم کی تعمیل میں انھیں جانا پڑا، جب لوگ منتشر ہوگئے تو معاویہ نے خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ جو خلیفہ بننے کا ارادہ رکھتا ہو وہ ہمارے سامنے بات کرے کیوں کہ ہم اس سے بلکہ اس کے باپ سے بھی زیادہ حق دار ہیں۔ حبیب بن مسلمہ نے (ابن عمر) سے کہا ، آپ نے انہیں(معاویہ) جواب کیوں نہیں دیا؟ عبداللہ بن عمر نے کہا میں جواب دینا چاہتا تھا اور میرا یہ کہنے کا ارادہ ہوا کہ آپ سے خلافت کا وہ زیادہ مستحق ہے جو اسلام کی خاطر آپ سے اور آپ کے باپ سے جنگ کرچکا ہے لیکن میں ڈرا کہ بات کہنے سے مسلمانوں کے اتحاد کو تفصان پہنچے گا اور خون بہےگا پس میں اس ثواب کو یاد کرکے خاموش رہا جو اللہ تعالیٰ نے جنت میں تیار کیا ہوا ہے، حبیب بن مسلمہ نے کہا واقعہ آپ نے مسلمانوں کو فساد سے محفوظ رکھا اور خونریزی سے بچالیا ہے۔
نتیجہ روایت: اسی کو کہتے ہیں حب علی ع نہیں بغض معاویہ روایت سے بہت واضح طور پر معاویہ نے عبداللہ بن عمر اور ان کے باپ ہر طنز کیا کہ میں ابن عمر اور عمر سے زیادہ حق دار خلافت ہوں تو ابن عمر کہنا چاہتے تھے کہ حضرت علی ع معاویہ سے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ انہوں نے معاویہ اور اس کے باپ ابوسفیان سے اسلام کی خاطر جنگ کی، ایک طرف معاویہ کے جملے نے عمر کی عظمت کا پول کھول دیا تو دوسری طرف ابن عمر نے معاویہ اور ابوسفیان کے چہرے پر پڑی ہوئی نقاب کو اتار کر ان کے کفر کا واضح طور پر اعلان کردیا اور ساتھ ہی ساتھ اقرار کرلیا کہ حضرت علی ع ہی حق دار خلافت تھے مگر افسوس یہ اس وقت کہا جب ان پر اور ان کے باپ پر چوٹ کی گئی ، کاش ! یہ اس حقیقت کا اظہار بعد وفات رسول ﷺ کردیتے تو اس کی نوبت ہی نہ آتی کہ معاویہ ان کے باپ کی حقیقت بتاتا
اس حدیث کی تشریح میں حضرت علی علیہ السلام کو کہاں کھینچ لائے۔ بات ھو رھی معاویہ کی اور سنا رھے تھے وہ ابن عمر رض کو۔ جواب اس لئے نہی دیا کہ فتنہ کا ڈر تھا صرف یہ کہا کہ جب معاویہ اور اسکا والد کفر میں تھے تو ھم نے ان سے جنگیں کی ھیں۔ آپ نے اسکو علی علیہ السلام پر فٹ کر دیا۔ دیکھیں کسی بھی اصحاب کی خلافت پر علی علیہ السلام کو اعتراض ھوتا تو آپ کیا سمجھتے ہیں وہ اس قابل نہی تھے کہ اعتراض کرتے۔ آپ نادانستہ طور پر علی علیہ السلام پر الزام لگا رھے ہیں۔ توبہ کریں۔
ReplyDelete