عائشہ روایت کرتی ہیں کہ رسول ص نے اپنی بیماری کے دوران فرمایا ابوبکر سے کہو وہ لوگوں کو نماز پڑھادیں ، عائشہ کہتی ہیں میں نے حفصہ سے کہا تم عرض کرو جب ابوبکر آپکی جگہ کھڑے ہوں گے تو رقت (رونے) کے باعث لوگوں کو اپنی قرائت نہیں سناسکیں گے۔ لہذا آپ عمر کو حکم دیجیئے کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حفصہ نے آپ ص سے کہا۔ رسول اللہ ص نے فرمایا: ٹھہرو تم یوسف ع کو گھیرانے والی عورتیں ہو، ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں ، حفصہ نے عائشہ سے کہا میں نے آپ سے کوئی خیر (نیکی) نہیں پائی۔
نتیجہ: امام بخاری نے اپنے نزدیک بڑی چالاکی سے اس روایت کے ذریعہ ابوبکر کو جانشین رسول ص ثابت کرنے کی کوشش کی مگر اپنے ہی جال میں پھنس گئے کیونکہ اس روایت سے ابوبکر اگر جانشین رسول ص اس لئے ثابت ہوں گے کہ رسول ص نے انہیں نماز پڑھانے کا حکم دیا تو عمر جانشین کی فہرست سے غائب ہورہے ہیں کیونکہ نبی ص نے ان کا نام سنکر ناراضگی کا مظاہرہ کیا اور ان کی بیٹی حفصہ کو ڈانٹ دیا ، دوسرے یہ کہ نبی ص نے حفصہ اور عائشہ کو جناب یوسف ع کو گھیرنے والی عورتوں سے تشبیح دی ہے۔ اس روایت کے بعد ان دونوں کو ام المومنین کہنے والے غور کریں ، جو سیرت میں زنان مصر جیسی ہوں وہ ام المومنین کے لقب کی حقدار کیسے ہوجائیں گی۔ تیسرے یہ کہ اس روایت میں عمر کی بیٹی حفصہ نے ابوبکر کی بیٹی عائشہ سے کہا میں نے آپ سے کوئی خیر نہیں پایا۔یعنی حفصہ عائشہ کے شر کا کھلا ہوا اعلان کررہی ہیں۔ فیصلہ کیجیے کہ دونوں میں کس کو مانئے گا۔
No comments:
Post a Comment