Saturday, 26 September 2015

Umar nay Fadak ki Tehreer Chak ker de


ابن ابی الحدید معتزلی شرح میں لکھتے ہیں:
"" فاطمہ علیہا السلام ابو بکر کے پاس آکر کہتی ہیں کہ میرے والد نے مجھے فدک عطا کر دیا تھا علی [ع] اور ام ایمن اس پر گواہ ہیں
ابوبکر نے کہا میں نے آپ کو اپنے والد کی طرف ہمیشہ حق کی نسبت دیتے ہوئے دیکھا ہے ۔ میں نے فدک آپ کو دے دیا اور ایک صحیفہ منگوایا اور فدک جناب سیدہ [ع] کے لئے لکھ کر دے دیا راستہ میں عمر نظر آئے تو خلاصہ تمام قصہ بیان ہوا ۔۔عمر نے سیدہ [س] سے نوشتہ لے لیا اور ابوبکر کے پاس لے آئے اور کہا کیا تم نے بنت رسول [ص] کو فدک لکھ کر دے دیا؟ ابو بکر نے کہا جی ہاں عمر نے کہا علی [ع] اپنے طرف معاملے کو کھینچ رہے ہیں {معاذ اللہ پاڑٹی بازی کر رہے ہیں}اور ام ایمن ایک عورت ہے ۔ اسکے بعد عمر نے نوشتہ پر تھوک کر تحریر مٹا دی اور پھر اسے پھاڑ دیا

Fadak Hazrat Zehra s.a ko Rasool s.a.w.w nay Ata Farmaya Scan Pages Ahlay Sunnat


۔ اللہ پاک قرآن پاک سورہ بنی اسرائیل آیت ۲۶ میں فرماتے ہیں
اور اپنے قریبوں کو انکا حق دیدو (پارہ ۵ سورہ بنی اسرائیل آیت ۲۶)
اور اہل سنت کی کتب میں ملتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی پاک ص نے حضرت زہرا س کو بلایا اور فدک انکو بطور ہبہ عطا کیا۔













Fidak Khalisatan Rasool s.a.w.w ki The Scan Pages













Sunday, 31 May 2015

معاویہ کا دعویٰ میں عمر بن خطاب سے زیادہ حق دار خلافت ہوں




















ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں حفصہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان کے گیسووں سے پانی ٹپک رہا تھا، میں عرض گزار ہوا کہ لوگوں نے خلافت کے بارے میں جو کچھ کیا وہ آپ ملاحظہ فرمارہی ہیں، اگر چہ مجھے بذات خود خلافت میں کچھ دلچسپی نہیں ہے ، فرمایا تم لوگوں سے جاکر ملو وہ تمہارا انتظار کررہے ہوں گے اور مجھے ڈر ہے کہ تمہارے نہ جانے کے باعث ان میں نا اتفاقی نہ ہوجائے ، پس ان کے حکم کی تعمیل میں انھیں جانا پڑا، جب لوگ منتشر ہوگئے تو معاویہ نے خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ جو خلیفہ بننے کا ارادہ رکھتا ہو وہ ہمارے سامنے بات کرے کیوں کہ ہم اس سے بلکہ اس کے باپ سے بھی زیادہ حق دار ہیں۔ حبیب بن مسلمہ نے (ابن عمر) سے کہا ، آپ نے انہیں(معاویہ) جواب کیوں نہیں دیا؟ عبداللہ بن عمر نے کہا میں جواب دینا چاہتا تھا اور میرا یہ کہنے کا ارادہ ہوا کہ آپ سے خلافت کا وہ زیادہ مستحق ہے جو اسلام کی خاطر آپ سے اور آپ کے باپ سے جنگ کرچکا ہے لیکن میں ڈرا کہ بات کہنے سے مسلمانوں کے اتحاد کو تفصان پہنچے گا اور خون بہےگا پس میں اس ثواب کو یاد کرکے خاموش رہا جو اللہ تعالیٰ نے جنت میں تیار کیا ہوا ہے، حبیب بن مسلمہ نے کہا واقعہ آپ نے مسلمانوں کو فساد سے محفوظ رکھا اور خونریزی سے بچالیا ہے۔





























نتیجہ روایت:  اسی کو کہتے ہیں حب علی ع نہیں بغض معاویہ روایت سے بہت واضح طور پر معاویہ نے عبداللہ بن عمر اور ان کے باپ ہر طنز کیا کہ میں ابن عمر اور عمر سے زیادہ حق دار خلافت ہوں تو ابن عمر کہنا چاہتے تھے کہ حضرت علی ع معاویہ سے زیادہ حقدار ہیں کیونکہ انہوں نے معاویہ اور اس کے باپ ابوسفیان سے اسلام کی خاطر جنگ کی، ایک طرف معاویہ کے جملے نے عمر کی عظمت کا پول کھول دیا تو دوسری طرف ابن عمر نے معاویہ اور ابوسفیان کے چہرے پر پڑی ہوئی نقاب کو اتار کر ان کے کفر کا واضح طور پر اعلان کردیا اور ساتھ ہی ساتھ اقرار کرلیا کہ حضرت علی ع ہی حق دار خلافت تھے مگر افسوس یہ اس وقت کہا جب ان پر اور ان کے باپ پر چوٹ کی گئی ، کاش ! یہ اس حقیقت کا اظہار بعد وفات رسول ﷺ کردیتے تو اس کی نوبت ہی نہ آتی کہ معاویہ ان کے باپ کی حقیقت بتاتا

عائشہ اور حدیث رسولﷺ: وہ قوم ہرگز فلاح نہیں پاسکتی جس نے اپنے امور عورت کے سپرد کردئیے





















ابو بکرہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے ایک کلمہ (ارشاد گرامی) نے جنگ جمل میں بڑا فائدہ پہنچایا جو میں نے آپ ﷺ سے سنا تھا حالانکہ میں جمل والوں (یعنی افواج عائشہ) میں شال ہوکر فریق ثانی سے لڑنے والا تھا وہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کو یہ خبر پہنچی کہ اہل فارس (ایران والوں) نے کسریٰ کی بیٹی کو اپنا حکمران بنالیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ قوم ہرگز فلاح نہیں پاسکتی جس نے اپنے امور عورت کے سپرد کردئیے۔





نتیجہ روایت: کیا انتظام قدرت ہے کہ خود عائشہ کے طرفدار کا کہنا ہے کہ میں عائشہ کی طرف سے حضرت علی ع سے لڑنے کےلئے نکلا تھا مگر مجھے حدیث پیغمبر ﷺ یاد آگئی کہ عورت کی قیادت میں چلنے والے نجات نہیں پاسکتے۔ کاش دوسرے اصحاب عائشہ بھی اس حدیث کے ذریعہ حقیقت قیادت عائشہ کو سمجھ لیتے اور کاش خود عائشہ ان حدیثوں سے نہ سہی جو حدیث انہیں حواب اور بصرا میں یاد آئی تھی کم سے کم اسی حدیث کے سبب پیچھے ہٹ جاتیں کیوں کہ اس حدیث سے صرف عائشہ ہی نہیں اہل لشکر بھی نقصان میں رہے یہی ثابت ہوتا ہے۔

عبداللہ بن عمر بن خطاب اور یزید (لعنتہ اللہ) کی وکالت




















ایوب کا بیان ہے کہ نافع نے کہا کہ جب اہل مدینہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت توڑ دی تو ابن عمر نے اپنے ساتھیوں اور لڑکوں کو اکٹھا کیا اور فرمایا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر دغا باز کےلئے قیامت کے روز ایک جھنڈا کھڑا کیا جائے گا اور بے شک ہم نے اس آدمی(یزید) کے ہاتھ پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کےلئے بیعت کی اور میں نہیں جانتا کہ اس سے بڑھ کر کوئی دھوکا بازی ہوکہ کسی آدمی کے ہاتھ پر بیعت کی جائے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے ہے پھر اس کے ساتھ لڑنے کی ٹھانی جائے اور میں نہیں جانتا کہ تم میں سے جو شخص اس کی بیعت توڑے گا یا کسی دوسرے سے بیعت خلافت کرے گا، مگر میرے اور اس کے درمیان جدائی کا فاصلہ ہے۔








































نتیجہ روایت:  اس روایت کے آئینہ میں امام بخاری اور عبداللہ بن عمر دونوں کا چہرا بہت ہی واضح ہوجاتا ہے، امام بخاری نے اس روایت کو لکھ کر اور عبداللہ ابن عمر نے یزید کی وکالت کرکے اپنے یزیدی ہونے کا کھلا ہوا اعلان کردیا رہی بات ابن عمر کی حدیث رسول ﷺ سنانے کی تو نبی ﷺ نے جن بیعت توڑنے والوں کی مذمت کی ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ خود عبداللہ کے باپ عمر ہیں اور وہ اصحاب رسول ﷺ جنہوں نے غدیر میں مولا علی ع کے ہاتھوں پر کی گئی بیعت کو توڑ کر سقیفہ میں بیعت ابوبکر کرلی۔

Friday, 29 May 2015

اللہ اپنا پاوں جہنم میں ڈال دے گا معاذاللہ


























ابوہریرہ مرفوعا روایت کرتے ہیں جبکہ ابوسفیان راوی  اسے اکثر موقوضاً روایت کیا کرتے تھے کہ جہنم سے کہا جائے گا کیا تو بھر گئی ؟ وہ عرض کرے گی کیا اور بھی ڈالنے ہیں؟۔۔ پس اللہ تبارک تعالیٰ اس پر اپنا قدم رکھ دیگا اور وہ کہے گی بس بس۔۔








































نیتجہ: اللہ معاف کرے یہ روایت لکھتے ہوئے بھی ہم جیسوں کا قلم کانپتا ہے مگر واہ رے امام بخاری اور واہ رے ابوہریرہ ! کس مزے کے ساتھ اللہ کے قدم کو جہنم میں پہنچا دیا۔ آپ اندازہ لگائیے کہ اس روایت میں جسم خدا بھی ثابت کردیا اور یہ بھی ثابت کردیا کہ اس جسم کا مقصد جہنم کی بھوک مٹانا ہے۔ میں (سید عباس نقوی) سمجھتا ہوں کہ اگر ان افراد نے اور کچھ نہ بھی کیا ہوتا تب بھی صرف یہی روایت ان کو دوزخ کی سیر کرانے کےلئے کافی ہے۔

Share This Knowledge