عروہ بن زبیر کا بیان
ہے کہ عبد اللہ بن عمر نے فرمایا کہ عمر سے کہا گیا ، آپ اپنا جانشین کیوں
مقرر نہیں فرماتے؟ فرمایا کہ اگر میں خلیفہ مقرر کردوں گا تو ابوبکر جو
مجھ سے بہتر تھے وہ خلیفہ مقرر کرگئے تھے اور اگر میں خلیفہ مقرر نہ کروں
تو مجھ سے جو بہتر تھے یعنی رسول اللہ ص انہوں نے خلیفہ مقرر نہیں فرمایا
تھا، پھر لوگ ان کی تعریف کرنے لگے تو فرمایا یہ رغبت اور ڈر سے ہے، میں تو
چاہتا ہوں کہ اس معاملے میں برابری کی سطح پر چھٹکارا پا جاوں ، نہ ثواب
ملے نہ عذاب، لہذا زندگی میں یا بعد وفات کیوں اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھاوں۔
نتیجہ:
وہ افراد اس روایت کو غور سے پڑھیں جو ابوبکر کی خلافت کا ذمہ دار رسول
اللہ ص کو بتاتے ہیں، بہت وضاحت سے عمر ابن خطاب نے یہ ثابت کردیا ہے کہ
ابوبکر کو رسول اللہ ص نے خلیفہ مقرر نہیں کیا تھا۔ ہاں انہوں نے یہ اقرار
ضرور کیا کہ ان کو (یعنی خود عمر) کو ابوبکر نے نام زد کیا تھا۔ لیکن خود
عمر کسی کو نام زد اس لئے نہیں کرنا چاہتے تھے کہ نام زد کرنا ابوبکر کی
سنت ہے اور خلیفہ نام زد نہ کرنا رسول ص کی سنت ہے۔ اب کیا کہئے گا ابوبکر
اور عمر کون بہتر ہے جو سنت رسول ص کی مخالفت کرے وہ یا پھر جو مطابقت کرے؟
ہماری نظر میں تو دونوں نے مخالفت سنت رسول ص کی ہے۔ ابوبکر نے عمر کو
خلیفہ بنا کر خلاف سنت عمل کیا تو خود عمر نے سقیفہ میں ابوبکر کو خلیفہ
بنوا کر خلاف سنت عمل کیا۔ حیرت کی بات ہے جو خلاف سنت ہوں وہی اہل سنت کے
رہنما ہیں۔
No comments:
Post a Comment